Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

کار کے ہارن پر وہ مثنیٰ اور نانو سے مل کر باہر آئی تو کار کے پاس طغرل کو دیکھ کر اس کے ابرو تن گئے۔

”السلام علیکم!“ اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے بیگ لیتے ہوئے شائستگی سے سلام کیا۔

”شوفر کہاں ہے؟ کیوں آئے ہیں آپ؟“ وہ سرد مہری سے کہہ رہی تھی۔

”انکل کراچی سے باہر ہیں اور شوفر ان کے ساتھ ہے۔ انکل نے ہی کال کی ہے مجھے تمہیں یہاں سے پک کرنے کی۔

”پاپا کو آپ کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا ہے؟ جو ہر بار آپ کو ہی بھیج دیتے ہیں۔“

”مجھے نہیں معلوم لیکن میں انکل کو کال ملا دیتا ہوں ۔ ابھی خود معلوم کر لو ان سے  بتا دیں گے۔“ اس نے سیل فون نکالتے ہوئے بھولپن سے کہا۔

”رہنے دیجئے!“ وہ بیک ڈور کھول کر بیٹھتے ہوئے بولی۔

”معلوم کر لو اچھی بات ہے ۔
(جاری ہے)

میں تو ویسے بھی خاصا بے اعتبار سا بندہ ہوں آپ کی نگاہوں میں۔
“ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا ہوا پر اعتماد لہجے میں بولا۔

”مجھ سے بحث میں جیتنا کوئی آسان بھی نہیں ہے یہ یاد رکھنا۔“ وہ کار اسٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔

پری نے کوئی جواب نہیں دیا تھا پھر کچھ دیر تک ان کے درمیان خاموشی رہی تھی۔ جس کو طغرل نے ہی توڑا تھا۔

”تم نے صرف ایک ویک اینڈ گزارا ہے اپنی نانو کے ہاں؟“

”مطلب…؟“ وہ غرائی تھی۔

”سمجھاتھا روٹھ کر گئی ہو۔ پانچ سال سے پہلے واپس آنے والی نہیں ہو مگر تم…“

”میں کبھی بھی آؤں ۔ کبھی بھی جاؤں میرے پاپا کا گھر ہے  وہ مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ تو گویا آگ بنی ہوئی تھی۔

”تمہاری نانو کیا تمہیں کریلے کھلاتی رہی ہیں…؟“

###

محبت کرنے کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

جاگتی آنکھوں میں خواب ہوا کرتے ہیں

ہر کوئی رو کے دکھائے یہ ضروری تو نہیں

خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں

”السلام علیکم بھابی جان!“ صباحت چھوٹی بہن نزہت کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی تھیں۔
تارا جو کاؤچ پر آرام دہ حالت میں نیم دراز ٹی وی پر کوکنگ شو دیکھ رہی تھیں ان کی بے وقت آمد پر جزبز انداز میں اٹھ کر بیٹھی تھیں  چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر گویا ہوئیں۔

”وعلیکم السلام! کہاں سے آ رہی ہو اس وقت؟“

”گھر سے آ رہے ہیں  صباحت آپی نے مجھے کال کی اور پوچھا گھر چل رہی ہو بھائی کے ہاں اور بات جب میکے آنے کی ہو تو کوئی بھی لڑکی انکار نہیں کر سکتی  آپی مجھے لے کر یہاں آ گئیں۔

”اچھا ہوا تم بھی آ گئیں  آرام سے بیٹھو۔ میں ملازمہ سے کولڈ ڈرنک لانے کا کہتی ہوں۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھیں۔

”بھابی ہر وقت کوکنگ شوزتو ایسے دیکھتی رہتی ہیں جیسے بڑی ہی باورچن بن گئی ہیں اور حقیقت میں ان کو انڈا بھی ڈھنگ سے ابالنا نہیں آتا ہے  ہر کام کیلئے ملازم رکھے ہوئے ہیں۔“

”ہاں یہ بات تو ہے ہمارے بھائی کی کمائی دل کھول کر لٹا رہی ہیں۔
اس پر کوئی ملال بھی نہیں۔“ نزہت نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔

”ارے ملال تو جب ہو گا نا جس وقت کوئی حساب کتاب لینے والا ہو  یہاں تو ان کا ہی راج ہے پھر بھائی جان کے علاوہ فاخر کی بھی سیلری اچھی بھلی ہے ان کو کس بات کی پروا ہے؟“

”آپی ایک انداز سے دیکھو تو اچھا ہی ہے۔“ اس نے سرگوشیانہ انداز میں اس کی جانب قدرے جھک کر کہا تھا۔

’؟’کس انداز سے بھئی؟“

”کل کو ہماری عائزہ اس گھر میں بہو بن کر آئے گی تو وہ بھی عیش کرے گی۔ بھابی سے زیادہ ہی… تم دیکھنا۔“

”ہوں… یہ تو ہے مگر ملازم تو میرے گھر میں بھی ہیں اور میں بچیوں سے کام کروانے کی قائل نہیں ہوں۔ اماں جان کی وجہ سے تھوڑا معمولی سا کام کر لیتی ہیں وہ وگرنہ میں نے شہزادیاں بنا کر رکھا ہوا ہے۔


”اچھی بات ہے ملازم ہیں  کل کو بھابی یہ طعنہ تو نہیں دیں گی کہ باپ کے گھر ملازم نہیں تھے سسرال میں آکر دیکھے ہیں۔“ اسی دم باہر سے قدموں کی چاپ آئی تو وہ سنبھل کر بیٹھ گئیں۔

”کولڈ کافی بنا کر لا رہی ہے وہ  مجھے یاد آیا تم دونوں کو کولڈ کافی بے حد پسند ہے۔“ وہ بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”بھابی! تم کو اور بھائی کو فرصت ہی نہیں ملتی میرے گھر آنے کی  اب تو ڈبل رشتے داری ہو گئی ہے تمہارا حق ہے۔

”ارے ہم تو کئی بار پروگرام بنا چکے ہیں تمہارے ہاں آنے کا۔“

”پھر آئیں کیوں نہیں؟ عائزہ بھی پوچھتی رہتی ہے۔“

”اچھا! وہ تو میری بیٹی ہے  مجھے یاد کرے گی اور کیوں نہیں کرے گی بڑی محبت اور ارمانوں سے وہ بہو بن کر اس گھر میں آئے گی۔“

”پھر کب آ رہی ہو بھائی کو لے کر؟“

”بات یہ ہے کہ جب بھی تمہارے گھر آنے کا پروگرام بناتے ہیں اس دن تم آ جاتی ہو  اس کو کہتے ہیں دل سے دل کو راہ اور ہم اپنا جانا ملتوی کر دیتے ہیں۔
“ ان کے گہرے انداز پر وہ تنک کر گویا ہوئی تھیں۔

”پھر تو آپ آنے سے پہلے فون کر لیا کریں۔“

”چلو اچھا ہے  ایسا ہی کروں گی اب  میں دیکھتی ہوں وہ ابھی تک کافی لے کر کیوں نہیں آئی۔“

”دیکھا تم نے نزہت! کس طرح میٹھی چھری سے وار کرتی ہیں یہ بھابی صاحبہ! اب ان کا مقصد ہے میں بھائی کے ہاں آنا ہی چھوڑ دوں؟“ ان کے جاتے ہی وہ آگ بگولہ ہوئیں۔

”ارے! کیوں خون جلاتی ہو آپی! عائزہ کے آنے کے بعد اس گھر کے دروازے آپ پر ہمیشہ کیلئے کھلے رہیں گے۔“

”صرف میرے لئے ہی نہیں ہم سب کیلئے کھل جائیں گے۔“

###

وہ کار سے اتر کر آئی تو شام گہری ہو چکی تھی۔ مالی لان میں پودوں کو پانی دے رہا تھا  لان میں رکھی چیئرز پر کوئی نہ تھا۔ طغرل گاڑی پارک کر رہا تھا وہ کار رکتے ہی پھرتی سے نکل آئی تھی۔
طغرل نے اس کے چہرے پر وہ ہی بے تابی و بے قراری دیکھی تھی جو وہ اس کی غیر موجودگی میں  اس کیلئے دادی کے چہرے پر دیکھتا تھا۔ ان دونوں کی دلی محبت کو وہ اب جان گیا تھا۔

دادی جان حسب عادل جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں  وہ جا کر سلام کرتی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔

”آ گئی دادی بوڑھی کی یاد تم کو جو چلی آئیں؟“ اس کی پیشانی چومتی ہوئی وہ گویا ہوئیں۔

”میں بھولتی ہی کب ہوں آپ کو دادی جان! یہ آپ ہی ہیں جو ایک بار بھی مجھے یاد نہیں کرتیں۔“ اس نے ان کے قریب بیٹھتے ہوئے گلہ کیا۔

”یہ تو میں جانوں یا میرا اللہ! تمہیں یاد کرتی ہوں یا نہیں۔“

”اگر آپ مجھے یاد کرتی تو ایک فون تو کر سکتی ہیں نا دادی جان!“

”کیا فون کرنے سے ہی محبت ظاہر ہوتی ہے پری!“

”ہاں دادی جان! آپ کی پری محبت کی ایک ایک بوند کیلئے ترسی ہوئی ہے۔
نامعلوم کیسی پیاس ہے یہ جو بجھتی ہی نہیں ہے۔“ وہ اپنی سوچ کو لفظوں کے پیراہن نہ دے سکی تھی۔

”چل اٹھ کر وضو کرکے آجا  مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔ نماز کے بعد میرے لئے اپنے ہاتھوں سے کریلے قیمہ بنا دے  بہت جی چاہ رہا ہے میرا۔ میں نے صباحت سے نہیں بنوایا کریلے قیمہ کا جو ذائقہ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔“

”یہ بات تو آپ نے سوا سولہ آنے درست کی ہے دادی جان!“ وہ اس کا بیگ لے کر اندر آتا ہوا سنجیدگی سے گویا ہوا۔

”ایک کریلہ نیم چڑھا… اور دوسرا پارس کے ہاتھ سے پکا…“

”طغرل بھائی! کسی نے آپ کو بکواس کرنے کیلئے نہیں کہا ہے۔“ وہ دادی کا خیال نہ کرکے اس سے گویا ہوئی۔

”پری! یہ کیا طریقہ ہے بیٹی! بھائی بھی کہہ رہی ہو اور اس انداز میں بھائی سے بات کر رہی ہو۔“

”دادی جان! ان کو بھی دیکھیں نا آپ  ان کا جو دل چاہتا ہے کہہ دیتے ہیں۔

”تمہارے کھانے پکانے کی تعریف ہی کر رہا ہے بچہ! یہ بتاؤ کس کے ساتھ آئی ہو؟“ انہوں نے موضوع بدلا۔

”میں لے کر آیا ہوں۔ انکل کا فون آیا تھا میرے پاس۔“

”تمہارے روپ میں فیاض کو ایک بیٹا مل گیا ہے  وہ اپنے دل کی بات تم سے کر لیتا ہے بہت محبت کرتا ہے تم سے۔“

”آف کورس دادی جان! وہ خود اتنی محبت کرتے ہیں کہ لوگ ان سے از خود ہی محبت کرنے لگتے ہیں۔

”اللہ میرے بچے کی پریشانیاں دور کرے۔“ وہ بڑبڑائی تھیں۔

###

اعوان کے جانے کے بعد ایک ایک دن اس کا اسی فکر میں گزر رہا تھا یہی وسوسے اس کو پریشان کئے ہوئے تھے  کہیں وہ جاپان سے واپس نہ آئے یا وہ اس کو بھول کر کسی اور سے دل لگا بیٹھے اور اس کے خواہشوں کے شیش محل کی عمارت خوابوں میں ہی مسمار ہو جائے اور وہ جو اس گھر سے  اس ماحول سے فرار ہونا چاہتی تھی۔

گلفام کی شریک حیات بن کر  حیات کی رنگینیوں سے دور ہو جائے۔

”مجھے اس طرح گھر میں بیٹھ کر وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے  مجھے اعوان کے دوست ساحر سے ملنا چاہئے اور اس سے مجھے اعوان کے بارے میں معلوم ہو گا اور میں بات بھی کر سکوں گی۔ اعوان نے مجھے ساحر کے بنگلے کا ایڈریس دیا ہے  مجھے فوراً جا کر اس سے ملنا چاہئے۔“ اس کے اندر ایک ہلچل ہوئی تھی۔

فاطمہ جو بیٹی کی کیفیت کو بہت حساس طریقے سے محسوس کر رہی تھیں وہ ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھیں اور خاموشی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیتی ہوئی اس کے قریب بیٹھ گئیں۔

”امی! کوئی کام ہے مجھ سے؟“ وہ چونک کر گویا ہوئی۔

”کیوں؟ ماں بیٹی کے پاس کسی کام سے ہی آتی ہے؟“ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سادگی سے کہہ رہی تھیں۔
“ پھر میں تم سے کام ہی کیا کراتی ہوں۔“

”آپ لیٹ جائیں امی! میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔“ اس کو ماں کی سنجیدگی سے خوف آتا تھا اس کو لگتا تھا کہ اس کی ماں کی آنکھیں اس کی چوری پکڑ لیں گی۔

اس کے ارادے جان جائیں گی۔

ایک خوف دامن گیر تھا جو ان کے قریب بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔

”کیوں بھاگتی ہو مجھ سے رخ! ماں ہوں میں تمہاری۔
“ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔

”سارے دن کی تھکی ہوئی ہیں آپ  آرام کر لیں۔“

”نہیں تھکی ہوئی ہوں میں  گھر کا کام اپنوں کیلئے ہوتا ہے اور اپنوں کا خیال کرکے خوشی ہوتی ہے۔ ابھی تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گی  کچھ دنوں بعد جب تمہاری شادی کر دوں گی تب سب سمجھ جاؤ گی میری ان باتوں کو۔“ ان کی بات پر اس کا دل بری طرح دھڑک اٹھا تھا۔

”شادی…! امی ابھی میرے امتحان ہوں گے  بہت سا پڑھنا ہے مجھے  میری ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔“

”امتحان؟“ انہوں نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”زندگی ایک امتحان ہی تو ہے ہماری  جو زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوں گے پھر تم کئی دنوں سے کالج بھی نہیں جاری ہو۔“

”امی! چھٹیاں تھیں نا  کل جانا ہے کالج۔“

”اب نہیں جاؤ گی تم کالج راس نہیں آیا ہے جب سے کالج گئی ہو بہت عجیب اور سب سے دور ہو گئی ہو۔

”نہیں امی! ایسی بات نہیں ہے میں ویسی ہی ہوں اور بھلا سب سے دور کیوں ہوں گی؟ آپ تو میرے اپنے ہیں۔“

”کچھ دنوں سے میں راتوں کو سکون سے سو نہیں پا رہی ہوں نا معلوم کیسے کیسے خواب نظر آ رہے ہیں مجھے  سارا سارا دن میں عجیب سی وحشت اور پریشانی میں مبتلا رہتی ہوں۔“

”امی! آپ کام بھی تو بہت کرتی ہیں  کمزوری ہو گئی ہے آپ کے اندر۔
میں آپ کیلئے گلوکوز ملا کر لاتی ہوں پانی میں۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

”رہنے دو رخ! مجھے ضرورت نہیں ہے یہ گلوکوز سے جانے والی کمزوری نہیں ہے  یہ تو کچھ اور ہی ہے جو میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں۔“ ان کے انداز میں الجھن تھی۔

”امی! میں امتحان دوں گی اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو آپ کو اجازت دینی ہو گی۔“

”مت بحث کرو مجھ سے  میں تمہاری بھلائی کیلئے کہہ رہی ہوں۔

”اس میں بھلائی نہیں ہے میری امی!“ وہ روہانسے لہجے میں بولی۔

”مجھے محسوس ہو رہا ہے رخ! کہیں بہت غلط کر رہی ہو تم۔“ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھیں  ان کے انداز پر وہ لمحے بھر کو نگاہ نہ اٹھا سکی تھی  دل سمٹنے سا لگا تھا۔

”تم جب تک کالج سے نہیں آتی ہو  میری نگاہیں دروازے پر ہی جمی رہتی ہیں۔
دل میں عجیب عجیب خیالات ادھم مچاتے ہیں۔“

”آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے امی؟“

”اعتماد ہے تب ہی تم کو اتنا پڑھا رہے ہیں  ورنہ تم یہ جانتی ہو ہماری قوم میں لڑکیاں پرائمری سے آگے نہیں پڑھتیں اور کم عمری میں ہی بیٹیوں کو رخصت کرنے کا رواج ہے اگر تمہارے ابا کی خواہش نہ ہوتی تمہیں پڑھانے کی تو میں بھی کب کی تم کو گلفام کی دلہن بنا چکی ہوتی۔
“ وہ دو ٹوک انداز میں کہہ رہی تھیں۔

گلفام کے نام پر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا مگر سامنے اس کی ماں بیٹھی ہوئی تھیں اور وہ اس کے احساس کو بخوبی جانچ سکتی تھیں۔ اندر کی پسندیدگی کو اس نے باہر نہیں آنے دیا تھا اور مسکرا کر بولی۔

”میں جانتی ہوں امی! آپ اور ابا خاندان سے ٹکر لے کر مجھے اعلیٰ تعلیم دلا رہے ہیں  یہ سب جانتے ہوئے میں کوئی غلط قدم کیسے اٹھا سکتی ہوں  آپ کی عزت کا خیال مجھے سب سے زیادہ ہے۔“ ان کا ہاتھ پکڑ کر وہ نم آنکھوں سے گویا ہوئی تھی۔

”میں تمہیں امتحان دینے کی اجازت دیتی ہوں  تم امتحان دے لو  ہماری یہ خواہش ہے تم خاندان کی لڑکیوں کیلئے اچھی مثال بن جاؤ  کل دوسری لڑکیاں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جائیں۔“

   2
0 Comments